جبری مشقت کے خلاف آواز اٹھانے والے اقبال مسیح کی زندگی پر مبنی ڈاکومینٹری فلم ریلیز کردی گئی، اقبال نے اپنی جدوجہد، بلندافکار اور سوچ سے دُنیا کو حیران کردیا تھا ۔

یہ 16 اپریل 1995 اور ایسٹر کی رات تھی اقبال سائیکل پر مارکیٹ سے واپس آ رہا تھا جب اس پر حملہ ہوا لیکن 29 سال گزرنے جانے کے بعد بھی آج تک یہ معاملہ حل نہ ہوا ۔

کراچی کے مقامی سینما میں راوا فلمز کی جانب سے اقبال مسیح کی زندگی پر بنائی گئی ڈاکومینٹری کو پیش کیا گیا،فلم اسکرینگ کے موقع پر آئے مہمانوں نے حساس موضوع کے انتخاب پر فلمساز کی محنت کو سراہا۔

فلم کے ہدایتکار عاطف علی کہتے ہیں کہ اس ڈاکومینٹری کے ذریعے ہم سوال اٹھائے ہیں چاہے اقبال کے اہل خانہ ہوں یا جس پر انہوں نے الزام لگائے دونوں طرف کے موقف پیش کیا ۔

ان کا کہنا تھا کہ اقبال کا قتل کیسے ہوا یہ کوئی نہیں جانتا لیکن ہم نے پہلی مرتبہ اس کے گھر والوں سے انٹرویو کیا ان موقف لیا ساتھ ہی ان سے بھی رابطہ کیا جس پر اقبال کے اہل خانہ قتل کا الزام لگاتے ہیں ۔

ہدایتکار نے مزید کہا کہ ہم نے سوال اٹھائے ہیں ہمارے پاس جواب نہیں ہیں ہمارے سوال اٹھانے کا مقصد یہ ہے کہ اس کے قاتلوں کو ڈھونڈا جائے ۔

یہ فلم ننھے جانباز اقبال مسیح کی بہادری اور اس کی متاثر کن جدوجہد کی عکاسی کرتی ہے ۔

اقبال مسیح کون تھا ؟

حقائق کے مطابق اقبال مسیح 1983 میں ضلع گوجرانوالہ کے نواحی شہر مرید کے میں پیدا ہوا۔ اقبال کے والدنے اس کے بڑے بھائی کی شادی کیلئے چند سو روپے کا قرض ارشد نامی ایک مقامی تاجر سے لے رکھا مگر ادھار چکانے کی استطاعت نہ تھی، یوں چار سال کی عمر میں ہی اقبال کو اپنے باپ کے لئے ہوئے قرض کے سبب مزدوری کرنے پر مجبور کر دیا گیا۔

چھ سال تک کیلئے اقبال دن میں چودہ گھنٹے تک کام کرتا رہا مگر قرض تھا کہ جوں کا توں موجود رہا۔ جب وہ دس سال کا ہوا تو اس عذاب سے نجات حاصل کرنے کیلئے بھاگ کھڑا ہوا مگر پولیس کے مقامی افسران نے اس کو پکڑ کر دوبارہ اسی تاجر کے حوالے کر دیا۔ اب کی بار کام کا بوجھ مزید بڑھا دیا گیا مگر ایک ہی سال بعد اقبال پھر سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔

اس دفعہ خوش قسمتی سے وہ ’چائلڈ لیبر‘ کیخلاف سرگرم تنظیم کے پاس جا پہنچا جنہوں نے پاکستانی قانون کی روشنی میں اسی غلامی کے طوق سے بچایا۔

اس کو بی ایل ایل ایف کی تنظیم نے پناہ دی اور ان کے ساتھ اس نے بچوں کی جبری مشقت کے خلاف کئی فورمز پر بات کی۔ وہ امریکہ اور سویڈن تک کانفرنسز میں شریک ہوا اور اسے بین الاقوامی ایوارڈز بھی ملے۔

More

Comments are closed on this story.