حالیہ عرصے میں تشہیری مہم کا ایک نیا پہلو سامنے آیا ہے۔ حکومت اپنے منصوبوں اور اپوزیشن ان منصوبوں کی تنقید کے لیے فنکاروں، انفلوئنسر یا وی لاگرز کا سہارا لے رہی ہے۔ ان دنوں وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی 100 روزہ کارکردگی سے متعلق سوشل میڈیا پر ویڈیوز موضوع بحث ہیں، ساتھ ہی تمام افراد جنہوں نے 100 روزہ کارکردگی کی ویڈیوز بنائیں ان کے بائیکاٹ کی مہم زور پکڑتی جارہی ہے۔

متعدد انفلوئنسرز اور پی ٹی آئی کے حامیوں نے الزام عائد کیا کہ پنجاب حکومت نے تشہیری مہم کے لیے غیر معمولی رقم خرچ کی ہے۔ انفلوئنسرز یا وی لاگرز اپنے فالوورز کی تعداد کے تناسب سے رقم کا تقاضہ کرسکتے ہیں، جس کا ایک آسان کلیہ تو یہ ہے کہ جس کے جتنے فالوورز ہوں گے اس کی مارکیٹ ویلیو زیادہ ہوگی اور اگر اس کی ویڈیوز پر لائکس اور رائے ملے تو گوگل بھی اس ویڈیو کو زیادہ لوگوں کو دکھاتا ہے۔

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق پنجاب حکومت کی جانب سے انفلوئنسرز اور اداکاروں نے گزشتہ 100 دنوں کے دوران پنجاب حکومت کے مختلف اقدام کی تعریف کی ان میں یاسر حسین، عائشہ عمر، صبور علی، صنم سعید، عروہ حسین، میکال ذوالفقار اور صبا فیصل، آئمہ بیگ اور جنید اکرم جیسے چند وی لاگرز بھی شامل ہیں۔

اداکارہ سجل علی نے پنجاب میں تعلیم میں ڈیجیٹل سکلز سکھانے جیسی اصلاحات کی تعریف کی، ماڈل عائشہ عمر نے اقلیتوں کی حفاظت کے لیے اٹھائے گئے مریم نواز کے اقدامات کی تعریف کی۔ ادارہ عروہ حسین نے خواتین کی حفاظت کے لیے شروع کیے گئے مصنوبوں کی تعریف کی، صنم سعید نے مفت ادویات اور ایئر ایمبولینس جیسے منصوبوں کی تعریف کی۔

پیڈ پروموشن کی تصدیق

اس حوالے اداکارہ صبا فیصل نے بی بی سی سے گفتگو میں وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ حکومت پنجاب کی کارکردگی سے متعلق ویڈیوز ایک ’پیڈ پروموشن‘ تھی۔

تاہم، وزیراطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس بات کی تردید کی کہ یہ کوئی پیڈ پروموشن تھی۔

صبا فیصل کا اپنے مؤقف میں کہنا تھا کہ ’میں کوئی نہ کوئی پیڈ شوٹ کر ہی رہی ہوتی ہوں اور اس دن بھی میں شوٹ پر تھی تو پی آر کمپنی نے کہا کہ ٹائم کم ہے 10 بجے تک کا ٹائم ہے آپ جلدی سے یہ ویڈیو بنا دیں گی؟‘

صبا نے اس کے جواب میں انہیں کہا کہ ’بھیجیں میں دیکھوں کیا ہے۔‘

انہوں نے بتایا، ’یہ ایک بہت لمبا سا پیراگراف تھا جسے دیکھ کر میں نے کہا کہ مجھے اس کے لیے تیاری کی ضرورت ہو گی، تو انہوں نے کہا کہ اچھا آپ صرف آخری زراعت والا حصہ کر دیں، یوں میں نے وہ ویڈیو پیغام ریکارڈ کر دیا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ رات کو جب گھر آ کر دیکھا تو میری باقی ویڈیوز کے کمنٹس سیکشن صارفین کی گالیوں سے بھرے پڑے تھے، مجھے گالیاں دی گئیں کہ پیسے لے کر یہ کرتی ہے وہ کرتی ہے وغیرہ۔’

کمنٹس آف کرنے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ پی آر کمپنی نے ہی کمنٹس آف کرنے کا کہا تھا۔

صبا کا کہنا تھا کہ ’اکثر پیڈ پروموشنز میں ہم سے کمنٹس آف کرنے کا کہا جاتا ہے کیونکہ سب ایک دوسرے کے مقابلے پر کھڑے ہوتے ہیں اس لیے ہم کمنٹس بند کر دیتے ہیں، انہوں نہ بھی کہا تو میں نے بند کر دیے۔‘

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ ایک پیڈ کانٹنیٹ تھا اور میں نے اسے پیڈ کانٹینٹ کی طرح ہی لیا۔

سوشل میڈیا پر عوامی ردعمل کے بعد صبا فیصل نے ویڈیو ڈیلیٹ کردی، لیکن پھر انہوں نے کہا کہ ’جنھوں نے مجھ سے وہ ویڈیو بنوائی تھی انھوں نے کہا ہمیں ابھی پیسے نہیں ملے، آپ ڈیلیٹ کر دیں گی تو میرے پیسے رک جائیں گے، لہذا میں نے پھر پوسٹ کر دی‘۔

کچھ نے آفر ٹھکرائی بھی

سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز بھی زیر گردش ہیں جن میں مختلف فنکار اور انفلوئنسرز دعویٰ کر رہے ہیں کہ ’پنجاب حکومت کے حکام نے پانچ سے دس لاکھ روپے معاوضے کے بدلے انہیں مریم نواز کی کارکردگی کے متعلق تعریفی ویڈیوز بنانے کے لیے رابطہ کیا ہے۔‘

ایسے ہی ایک وی لاگر حمزہ بھٹی نے دعویٰ کیا کہ ’انہیں مسلم لیگ ن کی جانب سے پروموشن کے لیے کال موصول ہوئی جس میں انہیں کمنٹس بند کرنے کی تجویز بھی دی گئی۔‘

حمزہ کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے اس پیڈ مہم کا حصہ بننے سے انکار کیا ہے کیونکہ ’میں وہ ہوں جو بکا نہیں۔‘

پنجاب حکومت کی تردید

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے کہا کہ یہ پیڈ کانٹینٹ نہیں تھا اور نہ ہی انہوں نے فنکاروں کو اس تشہیری مہم کے لیے چنا۔

عظمیٰ بخاری نے کہا،’حکومت نے ان اداکاروں یا سوشل میڈیا انفلوئنسر کو یہ ویڈیو بنانے کے لیے نہ رابطہ کیا اور نہ ہی کوئی معاوضہ ادا کیا۔ انہوں نے جو دیکھا اس کے متعلق ویڈیو بنا دی۔‘

پیڈ کانٹینٹ بنانے کیلئے کن باتوں کو ترجیح دینی چاہئیے

اگر کوئی سوشل میڈیا انفلوئسر، اداکار یا کوئی اور مشہور شخصیت کسی برانڈ، آئٹم یا موقف کی تشہیر کرتے ہیں تو ضروری ہے کہ انہیں چند اخلاقی معیارات کو برقرار رکھیں۔

اگر کوئی کسی بھی چیز یا بیانیے کی تشہیر ادائیگی کے عوض کرتا ہے تو اسے اسپانسر شدہ مواد یا سیاسی وابستگیوں کو واضح طور پر ظاہر کرنا چاہئیے۔

اس کے علاوہ یقینی بنائیں کہ ان کی توثیق حقیقی ہے اور صرف ذاتی فائدے کے لیے نہیں۔

باعزت مکالمے کی حوصلہ افزائی کریں اور متنوع نقطہ نظر کو تسلیم کریں۔

بہتر ہے کہ کسی مخصوص مہم کے بجائے ووٹر رجسٹریشن اور تعلیم کو فروغ دینے کے لیے اپنا پلیٹ فارم استعمال کرنے پر غور کریں۔

ان خیالات کو ذہن میں رکھتے ہوئے، انفلوئنسرز اور اداکار اخلاقی معیارات کو برقرار رکھتے ہوئے سیاسی بیداری کو فروغ دے سکتے ہیں۔

More

Comments are closed on this story.